کیا یاد بھی جھوٹی ہوتی ہے؟ – DW – 24.09.2024
  1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یاد بھی جھوٹی ہوتی ہے؟

24 ستمبر 2024

ہم یادوں کو اپنی زندگی کی سب سے قابل اعتبار ریکارڈنگ سمجھتے ہیں۔ مگر ان یادوں میں کچھ جھوٹی یادیں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ درست یادوں کی طرح یہ جھوٹی یادیں بھی ہماری ذات اور شناخت پر بے پناہ اثرات ڈالتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4l1r6
جرمنی میں میموریز آف نیشن تصویر
ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ میں جھوٹی اور سچی یادیں ایک ہی مقام پر ذخیرہ ہوتی ہیںتصویر: Imago Images/CTK Photo/M. Weiser

میں گیارہ برس کا تھا، جب گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ میری ایک دھندلی سی یاد ہے کہ میں اس روز اپنی دادی کے ساتھ اسکول سے گھر جا رہا تھا کہ راستے میں ایک دکان کے شیشے سے باہر کی جانب جھانکتی ٹی وی اسکرین پر ان حملوں سے متعلق رپورٹیں چل رہی تھیں۔ ہم وہاں کچھ دیر کھڑے ہو کر ٹی وی پر وہ مناظر دیکھتے رہے جب کہ وہاں دیگر راہ گیر بھی جمع تھے۔ کئی لوگ دھچکے کا شکار تھے اور رو رہے تھے جب کہ میں پرسکون تھا۔

مگر میں جانتا ہوں کہ یہ یاد بالکل جھوٹ پر مبنی ہے۔ ہمارے گاؤں کی کسی دکان کے شیشے سے کوئی ٹی وی یوں کبھی باہر کی جانب نہیں جھانکا اور میں اپنے دادی کے ساتھ کبھی اسکول سے گھر نہیں گیا کیوں کہ وہ ہمارے گھر سے بہت دور رہا کرتی تھیں۔

 جرمنی کی میونسٹر یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سماجی نفسیات گیرالڈ ایشٹرہوف کا کہنا ہے، ''جھوٹی یادیں ہونا ایک عمومی بات ہے۔ ہماری شخصیت حقیقی اور مجازی دونوں طرح کی یادوں ہی سے مل کر بنتی ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ''میموریز ایک بھرپور انداز سے تعمیر ہوتی ہیں۔ اس میں سماجی اثر سمیت کئی طرح کے عوامل بہ شمول خود سے یادوں کی تخلیق سب شامل ہوتے ہیں۔‘‘

تائیوان کے ایک خفیہ مورچے سے دکائی دینے والا چینی علاقہ
ماہرین کے مطابق دماغ کئی یادیں اپنے طور پر بنا لیتا ہےتصویر: Anne Wang/REUTERS

جیسے میں نے دکان کے ٹی وی کے سامنے کھڑے ہونے کی ایک یاد تخلیق کر لی یا دیگر افراد کی ایک خبر کو دیکھنے کی یادداشت بنا لی۔ ہم خود کو اپنی یادوں سے جانتے ہیں۔ ہمیں انہیں اپنے ماضی کی جھلک سمجھتے ہیں اور انہیں تجربات کی بنیاد پر اپنی زندگی کا بیانیہ تعمیر کرتے ہیں۔ ان یادوں کا ہم مسلسل دیگر افراد کی یادوں سے موازنہ کر کے یہ طے کرتے ہیں کہ ہم ماضی میں کیسے تھے۔

اگر میں دیگر مبہم یادوں کو سوچوں تو معلوم ہو گا کہ میری زندگی کا مکمل بیانیہ اپنی اسی خود ادارکی پر کھڑا ہے۔ اسی طرح اگر آپ یادیں کھو دیں، تو کیا ہو گا؟ یعنی آپ ڈیمنیشیا کا شکار ہو جائیں یا عمر کی وجہ سے یادداشت کھو بیٹھیں تو یہ بالکل ایسا ہو گا، جیسا خود فراموشی۔

اہم سوال یہ ہے کہ ہمارا ذہن بے شمار جھوٹی اور بھلا دی گئی یادوں پر مبنی ہے تو یہ کیسے طے ہو گا کہ ہماری اصل ذات اور شناخت کیا ہے؟ اس کے جواب کے لیے ہمیں دیکھنا یہ ہو گا کہ ذہن یہ یادیں محفوظ کیسے کرتا ہے۔

سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ ہماری یادداشت ہمارے دماغ کے ساتھ بھرپور انداز سے جڑی ہوئی ہے۔ دماغ طبعی طور پر یہ یادیں نیورونز خصوصی ہائیپوکمپُس اور امیگدالا کے مقامات پر ذخیرہ کرتا ہے۔ یہ نیورونز دیگر نیورونز کے ساتھ مل کر ایک نیا سائناپسس تخلیق کرتے اور انہیں نیورونل جوڑ سے ملاتے ہیں، تو ایک نئی یاد پیدا ہوتی ہے۔

انسانی یاد داشت کیسے کام کرتی ہے؟

اسی طرح بھولنے کا عمل نیورونز کے درمیان رابطے کی کٹوتی کا نام ہے۔ اس فراموش کر دیے گئے رابطے سے پیدا ہونے والا خلا ہم دوسروں سے سنی ہوئی باتوں سے بھرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جھوٹی یادیں، سچی یادوں ہی کی طرح اور دماغ کے اسی مقام پر طریقہ کار کے تحت محفوظ ہوتی ہیں۔

محقیقن نے انہیں الگ کرنے یا علیحدہ سمجھنے کے لیے کوشش کیں مگر اب تک اس بابت کوئی قابل اعتبار راستہ نہیں ملا ہے۔

ع ت، ا ا (فریڈرک شوالر)