کیا پاکستان میں لینِن کی سوچ کو بطور ماڈل اپنایا جا سکتا ہے؟ – DW – 18.08.2024
  1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان میں لینِن کی سوچ کو بطور ماڈل اپنایا جا سکتا ہے؟

18 اگست 2024

کچھ مورخوں کا خیال ہے کہ تبدیلی پہلے سوسائٹی سے شروع ہوتی ہے اور اُس کی تکمیل کسی شخصیت کی رہنمائی میں ہوتی ہے۔ اب اگر ہم روسی سوسائٹی کو 1917 کے انقلاب کے پسِ منظر میں دیکھیں تو لینِن کا کردار سمجھ میں آتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4jYuf
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

کچھ مورخوں اور مفکرین کی دلیل یہ ہے کہ تاریخ کو تبدیل کرنے کا کام شخصیتوں کا ہے۔ جب عظیم افراد اپنے خیالات و افکار سے سوسائٹی کو متاثر کرتے ہیں تو عوام میں تبدیلی کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے مورخوں کا خیال ہے کہ تبدیلی پہلے سوسائٹی سے شروع ہوتی ہے اور اُس کی تکمیل کسی شخصیت کی رہنمائی میں ہوتی ہے۔

روسی معاشرے میں سیاسی اور سماجی بیداری پیدا کرنے میں اُس کے دانشور، طلباء، انقلابی پارٹیاں اور سیکریٹ سوسائٹیز کا بڑا حصہ ہے۔ میرے خیال میں جن ادیبوں نے تعلیم یافتہ لوگوں میں تبدیلی کا کام کیا۔ اُن میں نکولائی گوگلول، روسی ناول نگار فیودور دوستویفسکی، ایوان ترگینیف، اینٹن شیخوف، لیو ٹولسٹائی، ماکسیم گورکی اور شاعروں میں الیگزانڈر پشکن قابلِ ذِکر ہے۔ پلیخانوف نے مارکس کے فلسفے کو روس میں روشناس کرایا۔

انقلابی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے روسی ریاست نے لوگوں کو سخت سزائیں دیں۔ شہریوں کو سائبیریا بھیجا گیا۔ کچھ کو فائرنگ اسکواڈ سے قتل کروایا گیا اور کچھ کو جیلوں میں رکھا گیا۔ لیکن ان تمام سزاؤں کے باوجود انقلابی سرگرمیاں جاری رہیں۔

سن 1909 میں ماسکو میں لوگوں نے ایک بڑا مظاہرہ کیا۔ اس میں زار سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنی رعایا کے بنیادی مسائل کو حل کرے، جس میں خاص طور سے مہنگائی شامل تھی۔ مظاہرے میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ مظاہرین پر فوج نے فائرنگ کر کے قتلِ عام کیا۔ اس خبر نے پورے روس میں ہنگامی صورتحال کو پیدا کر دیا۔ جگہ جگہ مظاہرے ہونے لگے۔

 زار نکولِس کے خلاف لوگوں میں نفرت پھیل گئی۔ ریاست نے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے اُنہیں سختی سے کچلنا شروع کیا۔ یہ وہ حالات تھے کہ جب لینِن ایک انقلابی رہنما کی حیثیت سے اُبھرا۔ اس نے روس کی تاریخ اور سیاست کا گہرا مطالعہ کیا۔ اپنی انقلابی زندگی کا بڑا حصہ جلاوطنی میں گزارا۔ یہ مسلسل سیاست میں بھی حصہ لیتا رہا اور بالشویک پارٹی کا رہنما بنا۔ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود یہ مسلسل لکھتا بھی رہا۔

سن 1914 کی پہلی عالمی جنگ میں روسی افواج کو جرمنوں نے بُری طرح شکست دی۔ جنگ نے روس کے حالات کو تبدیل کر ڈالا۔ اصلاحات کی ترکیبیں بھی ناکام ہو گئیں۔ فروری سن 1917 میں جب احتجاج میں عوام کے ساتھ فوج بھی شامل ہو گئی تو زار نکولس دوم کو اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا اور ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا، جو مُلک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی۔

لینِن اُس وقت سوئٹزرلینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا اور روس واپس جانے کے لیے بےچین تھا۔ کیونکہ انقلاب کے لیے اس کی موجودگی بےحد ضروری تھی۔ اس موقع پر جرمن گورنمنٹ نے اس کو پیشکش کی کہ وہ اُسے ٹرین کے ذریعے پیٹرو گراڈ پہنچا دیں گے۔ کیونکہ یہ اُن کا مُفاد تھا کہ لینِن اقتدار میں آنے کے بعد جنگ بند کر دے گا اور جرمن افواج مشرقی محاذ سے نکل کر اپنی توجہ مغربی محاذ پر دے گی۔

لینِن کے اس سفر کا حال امریکی ادیب ایڈمنڈ ولسن نے اپنی کتاب To the Finland Station میں کیا ہے۔ لینِن اور اُس کے پچیس انقلابی ساتھی ایک محفوظ ٹرین میں سوئٹزرلینڈ سے روانہ ہوئے۔ ٹرین میں سوار ہونے کے فوراً بعد ہی لینِن نے کوچ کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا کام شروع کر دیا۔ جب اُس کے ساتھی زور سے بات چیت کرنے لگے تو اُس نے اُنہیں خاموش رہنے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ وہ باہر جا کر سِگریٹ پیئیں۔

 جب ٹرین پیٹروگراڈ سے پہلے سٹاک ہوم اسٹیشن پر رُکی تو لینِن کے ایک ساتھی نے اس سے کہا کہ تمہارا لباس اس قابل نہیں کہ تم لوگوں کے سامنے جاؤ۔ اس کے بعد جلدی میں قریبی بازار سے لینِن کے لیے قمیض اور پینٹ خرید کر لائی گی۔ جب ٹرین پیڑو گراڈ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو وہاں لینِن کے استقبال کے لیے ہجوم جمع ہو گیا تھا۔ سازِندے بینڈ پر انقلابی نغمے بجا رہے تھے۔ جب لینِن ٹرین سے باہر آیا تو اس کا پُرجوش استقبال کیا گیا۔ وہاں اس نے لوگوں سے مُختصر خطاب کیا۔ اس کے بعد اس کا سارا وقت انقلاب کے منصوبے کو پورا کرنے میں لگا۔

روزمرّہ کے معمولات میں لینِن وقت کی پابندی اور سادگی کا قائل تھا۔ اگرچہ کریملِن میں اس کی رہائش تھی مگر جب اسے لکھنا ہوتا تھا تو وہ سرونٹ کوارٹر میں جا کر پڑھنے لکھنے کا کام کرتا تھا۔ ایک مرتبہ جب جرمن وفد اس سے ملنے آیا۔ اس وفد میں شامل لوگ سوٹ اور ٹائی میں مَلبوس تھے۔ عین وقت پر لینِن کمرے میں داخل ہوا۔ وہ تنہا تھا اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ اس نے ان افراد سے بے تکلفانہ گفتگو کی۔ وفد میں شامل افراد اس کی سادگی اور بے تکلفی سے بے حد مُتاثر ہوئے۔

ایک جرمن ڈاکٹر جب لینن کو بیماری کی حالت میں دیکھنے آیا تو اس ڈاکٹر ٍنے بتایا کہ کمرے میں ایک بستر تھا اُس کے ساتھ دو یا تین کُرسیاں تھیں۔ میز پر کتابیں تھیں۔ کمرے کی دیواروں پر کوئی تصویر یا پینٹنگ نہیں تھی۔ اس سے لینِن کی سادگی کا پتہ چلتا ہے۔

تاریخ میں روس کا سن 1917 کا انقلاب نہ صرف لینِن کی رہنمائی میں آیا بلکہ اس میں اس کے ساتھ روسی عوام کی خواہشات بھی تھیں۔ بالشویک پارٹی کا انقلابی جذبہ بھی اُس کی بنیاد بنا۔ سن 1917 کا انقلاب عالمی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے، جس میں پہلی مرتبہ ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھی جو مُختلف تھی۔

لینِن نے اپنی پوری زندگی انقلاب کے لیے وقف کر دی تھی اور وقت کو ذاتی یا دیگر مسائل میں ضائع نہیں کرتا تھا۔ انقلابی رہنما کے ساتھ وہ ایک دانشور بھی تھا اور اپنے پیچھے اپنی تحریروں کا سرمایہ بھی چھوڑا ہے۔ اس کا مطالعہ آج بھی انقلابی سیاست کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

 54 سال کی عمر میں اس کی وفات ہوئی اور اس کم وقت میں اُس نے جلاوطنی، انقلابی سرگرمیوں اور بیماریوں کا سامنا کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج کل کے پاکسان کے ماحول میں لینِن کو بطور ماڈل اپنایا جا سکتا ہے؟ کیونکہ اُس کی سالگرہ کے سو برس پورے ہونے پر محض اس کی شخصیت کو یاد کرنا نہیں بلکہ یہ کہ اس نے کن حالات میں روسی معاشرے کو تبدیل کیا اور لوگوں کے مسائل کو حل کیا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔