ٹی ٹی پی کا غیر ملکی سفارت کاروں کے قافلے پر حملے سے انکار – DW – 23.09.2024
  1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

ٹی ٹی پی کا غیر ملکی سفارت کاروں کے قافلے پر حملے سے انکار

23 ستمبر 2024

پاکستانی طالبان نے خیبرپختونخوا میں غیر ملکی سفارت کاروں کے قافلے پر حملے سے انکار کیا ہے۔ اتوار کو اس حملے میں سفارت کار محفوظ رہے لیکن ایک پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/4kyOG

پاکستانی حکام کے مطابق غیر ملکی سفارت کاروں پر جب یہ حملہ ہوا، اس وقت وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک سیاحتی علاقے کا سفر کر رہے تھے
پاکستانی حکام کے مطابق غیر ملکی سفارت کاروں پر جب یہ حملہ ہوا، اس وقت وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک سیاحتی علاقے کا سفر کر رہے تھےتصویر: Mehboob Ul Haq/AFP

خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری اب تک کسی نے قبول نہیں کی ہے اور پاکستانی حکام اس میں ملوث تنظیم کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس دوران ت‍حریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک ترجمان م‍حمد خراسانی نے سفارت کاروں کے قافلے کو بم سے اڑانے کی کوشش کی تردید کی ہے۔

ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں کہا، ''اس حملے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘

پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

پاکستان کیوں انتہاپسندی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پا رہا؟

پاکستانی حکام کے مطابق غیر ملکی سفارت کاروں پر جب یہ حملہ ہوا، اس وقت وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک سیاحتی علاقے کا سفر کر رہے تھے۔ حکام کے مطابق یہ غیر ملکی سفارت کار بحفاظت اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے حملے کی مذمت کی ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ دہشت گرد عناصر ناصرف ملک و قوم بلکہ اِنسانیت کے دُشمن ہیں۔ شہباز شریف کہا، ''یہ بزدلانہ کارروائیاں ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔‘‘

’کسی اندر کے آدمی کی کارستانی‘

اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز میں دفاعی تجزیہ کار عبداللہ خان نے کہا، ''یقینی طور پر سکیورٹی میں کسی نے مخبری کی ہے اور  عسکریت پسندوں کو غیر ملکی سفیروں کے سفری منصوبے سے انہیں آگاہ کر دیا۔ کیونکہ قافلے کے روٹ کا علم صرف پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کو تھا۔‘‘  انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ باغیوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے، جو پہلے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

پاکستانی دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے مزید کہا کہ شمال مغرب کے ہائی پروفائل دورے کے دوران وفاقی حکام اور پولیس کے درمیان بہتر رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق اس قافلے میں انڈونیشیا، ایتھوپیا، پرتگال، قازقستان، بوسنیا اور ہرزیگووینا، زمبابوے، روانڈا، ترکمانستان، ویت نام، ایران، روس اور تاجکستان کے سفارت کار اور دیگر اہلکار شامل تھے۔

اس حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہو گ
اس حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہو گئےتصویر: Mehboob Ul Haq/AFP

حملے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

یہ قافلہ ضلع سوات کے سیاحتی مقام اور پہاڑی مقام مالم جبہ سے گزر رہا تھا کہ اسے دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ علاقہ پاکستانی طالبان سمیت عسکریت پسند گروپوں کا گڑھ ہے۔ سوات کے ضلعی پولیس افسر زاہد اللہ خان نے کہا کہ کسی سفارت کار کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

سفارت کار مقامی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے سیاحت، دستکاری اور جواہرات کو فروغ دینے کے لیے منعقدہ پروگرام میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے۔

پاکستان میں حملوں میں اضافہ

وادی سوات طویل عرصے سے عسکریت پسندوں کا گڑھ رہی ہے۔ وہاں کے عسکریت پسندوں نے حکومت کے ساتھ جنگ ​​بندی ختم  کے بعد 2022ء کے آخر سے اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق، 2023 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 930 افراد، جن میں زیادہ تر سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے، جب کہ تقریباً 2,000 زخمی ہوئے۔

اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگست میں عسکریت پسندوں کے دو دن کے حملوں میں کم از کم 84 افراد مارے گئے۔

ج ا  ⁄  ع ا  (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)