عراق حملوں کی ذمہ داری القاعدہ کے حامی گروہ نے قبول کر لی – DW – 12.08.2013
  1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق حملوں کی ذمہ داری القاعدہ کے حامی گروہ نے قبول کر لی

عاطف توقیر12 اگست 2013

عراق میں القاعدہ سے وابستہ ایک گروہ نے عیدالفطر کے موقع پر ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ عراق بھر میں ہونے والے ان دھماکوں میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

https://p.dw.com/p/19NmS
تصویر: Fotolia/Oleg Zabielin

اتوار کے روز القاعدہ سے وابستہ گروپ اسلامک اسٹیٹ آف عراق یا الدولة الاسلامی العراق نامی گروہ نے جہادیوں کے زیراستعمال ایک انٹرنیٹ فورم پر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ اس گروپ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ’اسلامک اسٹیٹ نے بغداد، جنوبی ریاستوں اور دیگر علاقوں میں عیدالفطر کے تیسرے روز سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے خلاف اپنے کارکنوں کو حرکت دی۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’شیعہ افراد اب خواب میں بھی سلامتی کا نہیں سوچ پائیں گے، دن ہو، رات ہو، کوئی اور دن ہو یا عید۔‘

Irak Bagdad Anschlagserie Terror 10.08.2013
ان حملوں میں 70 سے زائد شہری مارے گئےتصویر: picture alliance / AP Photo

عراق میں عیدالفطر کے موقع پر کیفے، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں ہونے والے ان بم دھماکوں میں 74 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ عوام حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں کہ وہ ایسے پرتشدد حملوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں کر رہی۔

بین الاقوامی برادری کی جانب سے عراق میں ہونے والی ان ہلاکتوں اور تین سو زائد افراد کے زخمی ہونے کے واقعات کی شدید مذمت کی ہے، تاہم خبر رساں ادرت AFP کے مطابق ان حملوں کے حوالے سے عراقی وزیراعظم نوری المالکی سمیت کسی عراقی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے مذمتی پیغام بھی جاری نہیں کیا گیا۔

ہفتے کے روز ہونے والے ان حملوں کے بعد ان خدشات کو تقویت ملی ہے، جن میں کہا جا رہا ہے کہ عراق فرقہ وارانہ تشدد کی جانب بڑھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ سن 2006 اور سن 2007ء میں عراق میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ رواں برس ماہ رمضان میں ہونے والی ہلاکتیں سن 2007ء کے بعد اس ماہ میں ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں تھیں۔

اس سے چند ہفتے قبل بغداد کے قریب واقع ایک جیل پر حملے کے بعد القاعدہ کے اس گروہ نے کہا تھا کہ اس نے اپنے سینکڑوں ساتھی چھڑا لیے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ عراق میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔