سویڈن کی بچوں اور نوجوانوں کو ڈیجیٹلائزیشن سے بچانے کی کوشش – DW – 17.09.2024
  1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسویڈن

سویڈن کی بچوں اور نوجوانوں کو ڈیجیٹلائزیشن سے بچانے کی کوشش

17 ستمبر 2024

سویڈش حکومت کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ اسکرین ٹائم نوجوانوں میں صحت کے شدید مسائل کی وجہ بن رہا ہے۔ اب وہاں اسکولوں میں ڈیجیٹل ڈیوائس پر پابندی کے لیے قانون سازی کی کوشش ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ki1v
ایلیمنٹری ٹیچر آسا لِنڈ
ایک ایلیمنٹری ٹیچر آسا لِنڈ کا خیال ہے کہ اسکولوں کو نوجوان طالب علموں کے لیے اسکرین ٹائم کو مزید محدود کرنا چاہیےتصویر: Teri Schultz/DW

سویڈن کی حکومت اسکولوں میں ڈیجیٹل ڈیوائسز پر پابندی عائد کرنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کر رہی ہے، کیونکہ اسکرین پر زیادہ وقت گزارنے سے نوجوانوں کے لیے 'صحت کا شدید بحران‘ پیدا ہوتا ہے، جس سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں متاثر ہوتی ہیں۔

بچوں کا بڑھتا اسکرین ٹائم، کیوں خطرناک؟

پاکستانی بچوں میں اسمارٹ فون کی لت پر طبی ماہرین کی تشویش

سویڈن کے سماجی معاملات اور صحت عامہ کے وزیر جیکب فورسمیڈ کے مطابق ڈیجیٹل آلات کے مسلسل استعمال کی وجہ سے طلباء بنیادی جسمانی اور فکری صلاحیتوں سے محروم ہو رہے ہیں، ''وہ قینچی سے نہیں کاٹ سکتے۔ وہ درخت پر نہیں چڑھ سکتے۔ وہ اُلٹے قدم نہیں چل سکتے کیونکہ وہ اپنے موبائل فون لیے بیٹھے رہتے ہیں۔‘‘

سویڈن کے سماجی معاملات اور صحت عامہ کے وزیر جیکب فورسمیڈ
سویڈن کے سماجی معاملات اور صحت عامہ کے وزیر جیکب فورسمیڈ کے مطابق ڈیجیٹل آلات کے مسلسل استعمال کی وجہ سے طلباء بنیادی جسمانی اور فکری صلاحیتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔تصویر: Teri Schultz/DW

فورسمیڈ ڈیجیٹل ڈیوائسز کے استعمال کو نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیماریوں سے بھی جوڑتے ہیں، جن میں عام طور پر بزرگ اور بالغ افراد میں دیکھی جانے والی بیماریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نیند کی کمی ان میں اضطراب اور افسردگی جیسے مسائل کی وجہ بنتی ہے، خاص طور پر لڑکیوں میں۔

اسکول کے پورے دن کے دوران ڈیوائسز کے استعمال پر پابندی

نئے قانون کے تحت نویں جماعت تک کے طالب علموں کے لیے اسکول کے وقت کے دوران ڈیوائسز تک رسائی پر پابندی ہوگی، اور یہ پابندی وقفوں کے دوران بھی لاگو رہے گی۔

یہ سویڈش پبلک ہیلتھ ایجنسی کی نئی ہدایات کے مطابق ہے، جس میں اسکرین ٹائم پر سخت پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ اس میں تجویز کیا گیا ہے کہ دو سال سے کم عمر بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسز بالکل نہ دی جائیں جبکہ نوعمروں کے لیے زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے۔

بچوں کے دماغ پر اسکرین ٹائم کے اثرات

کچھ اسکولوں نے پہلے ہی اسی طرح کی پالیسیوں کو نافذ کیا ہے۔ مالمو کے ایک وائس پرنسپل پیٹرک سینڈر کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز کے استعمال پر پابندی کے بعد ایڈکشن اور غنڈہ گردی جیسے مسائل پر قابو پایا گیا ہے، کیونکہ وہاں طالب علموں کی طرف سے دیگر طلباء کی نامناسب تصاویر لے کر انہیں شیئر کرنے جیسے واقعات ہوئے تھے۔

پیٹرک سینڈر ڈیوائسز کے استعمال کے حوالے سے نشے جیسے رویوں کے بارے میں فکرمند ہیں اور کہتے ہیں، ''آپ اب بھی دیکھ سکتے ہیں کہ طالب علموں کے ہاتھ ان کی تلاش کر رہے ہیں۔‘‘

بچے 'نشے‘ جیسی کیفیت کا شکار

طلباء خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ خود کو فون کے استعمال سے روکنے میں انہیں شدید مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ 11 سالہ طالبہ ایما کہتی ہیں، ''آپ کبھی کبھار نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ ایک اور طالب علم ایسیا نے اعتراف کیا ہے کہ اگر اسے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تو وہ کلاس کے دوران اپنے فون میں کھو جائے گا۔ وہ اس کے مقابلے میں اسکول کو 'بہت بورنگ‘ قرار دیتا ہے۔

سویڈن کے ایک اسکول کے طلباء
طلباء خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ خود کو فون کے استعمال سے روکنے میں انہیں شدید مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ تصویر: Teri Schultz/DW

اساتذہ بھی اسکرین ٹائم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک ایلیمنٹری ٹیچر آسا لِنڈ کا خیال ہے کہ اسکولوں کو نوجوان طالب علموں کے لیے اسکرین ٹائم کو مزید محدود کرنا چاہیے، ''یہ بہت زیادہ وقت ہوتا ہے جب وہ کمپیوٹر پر ہیڈ فون لگا کر اپنی کوئی اسائنمنٹ کرتے ہیں۔‘‘

اساتذہ اور والدین کی بھی حمایت

بہت سے والدین اور اساتذہ وزیر صحت فورسمیڈ کے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ وائلن ٹیچر لنڈا ٹویولا، جو خود بھی تین بچوں کی والدہ ہیں، سخت قوانین کا خیر مقدم کرتی ہیں، ''مجھے یہ بہت اچھا لگے گا!‘‘ ان کے یہ الفاظ نوجوانوں کی صحت اور نشوونما پر آلات کے اثرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی کرتے ہیں۔

ٹیری شُلٹس (ا ب ا/ش ر)