ایشیا کی سلامتی امریکی ترجیح ہے، پینٹاگون سربراہ – DW – 01.06.2024
  1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتچین

ایشیا کی سلامتی امریکی ترجیح ہے، پینٹاگون سربراہ

1 جون 2024

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے ایشیائی اتحادی ممالک کو بحرالکاہل میں ’چین کے خطرے‘ سے نمٹنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ صرف اُسی صورت میں محفوظ ہو سکتا ہے، جب ایشیا محفوظ ہو۔

https://p.dw.com/p/4gWjM
ایشیا کی سلامتی امریکی ترجیح ہے، پینٹاگون سربراہ
ایشیا کی سلامتی امریکی ترجیح ہے، پینٹاگون سربراہتصویر: Chad J. McNeeley/US DoD/EPA

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعے کے روز سنگاپور میں ہونے والے سالانہ ''شنگریلا ڈائیلاگ سکیورٹی سمٹ‘‘ سے خطاب کیا، جہاں ان کے چینی ہم منصب ڈونگ جون بھی موجود تھے۔ اپنے اس خطاب میں انہوں نے تائیوان سے لے کر بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ حکومت کی فوجی سرگرمیوں کے بارے میں گفتگو کی اور خطے کے اتحادی ممالک کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ایشیا کی سلامتی اب بھی امریکی ترجیحات میں شامل ہے۔

امریکہ کے اتحادی ایشیائی ملک میں یہ تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ واشنگٹن کی توجہ یوکرین میں روسی حملے کا مقابلہ کرنے اور غزہ میں اسرائیل کی جنگ پر مرکوز ہے اور یہ کہ واشنگٹن حکومت نے انڈو پیسیفک سے توجہ ہٹا لی ہے۔

امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی پہلی مدت صدارت ختم ہونے کے قریب ہے اور ایسی صورت حال میں انہوں نے خطے کے اتحادی ممالک کو یقین دہانی کروائی ہے کہ امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کا کہنا تھا، ''یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ان تاریخی جھڑپوں کے باوجود انڈو پیسیفک ہماری سرگرمیوں کا ترجیحی مرکز رہا ہے۔‘‘

امریکی وزیر دفاع کا مزید  کہنا تھا، ''مجھے واضح کرنے دیں! امریکہ صرف اسی صورت میں محفوظ ہو سکتا ہے جب ایشیا محفوظ ہو۔ اسی وجہ سے امریکہ نے طویل عرصے سے اس خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔‘‘

آسٹن نے خطے میں اتحاد کی اہمیت پر زور دیتے اور چین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''اور... تنازعات کا پرامن حل بات چیت کے ذریعے ہونا چاہیے نہ کہ زبردستی یا تصادم کے ذریعے اور یقینی طور پر نام نہاد سزا کے ذریعے نہیں۔‘‘

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعے کے روز سنگاپور میں ہونے والے سالانہ ''شنگریلا ڈائیلاگ سکیورٹی سمٹ‘‘ سے خطاب کیا، جہاں ان کے چینی ہم منصب ڈونگ جون بھی موجود تھے
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعے کے روز سنگاپور میں ہونے والے سالانہ ''شنگریلا ڈائیلاگ سکیورٹی سمٹ‘‘ سے خطاب کیا، جہاں ان کے چینی ہم منصب ڈونگ جون بھی موجود تھےتصویر: DoD/Chad J. McNeeley/Handout/REUTERS

دوسری جانب چینی وزارت دفاع کے ایک ترجمان وو کیان نے صحافیوں کو بتایا ہےکہ  اس سکیورٹی اجلاس میں چین کے وزیر دفاع ڈونگ جون نے آسٹن کو خبردار کیا کہ وہ چین کے تائیوان کے ساتھ معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔  بیجنگ حکومت تائیوان کو چین کا حصہ سمجھتی ہے۔

کچھ امریکی اہلکاروں کے مطابق حالیہ کچھ عرصے کے دوران چین کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور اس نے تائیوان کے خلاف سخت موقف اپنا رکھا ہے۔ چند روز پہلے چین نے تائیوان کے اردگرد جنگی مشقیں کی تھیں، جنہیں اس نے ''سزا‘‘ کا نام دیا۔ ان مشقوں میں بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگی طیارے شامل ہوئے جبکہ ایک فرضی حملہ بھی کیا گیا۔

امریکہ یوکرین پر  روس کے حملے کے بعد سے اب تک کییف حکومت کو دسیوں ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کر چکا ہے جبکہ امریکی کانگریس نے گزشتہ ماہ ہی یوکرین کے لیے مزید 61 بلین ڈالر مختص کیے تھے۔ دوسری جانب انڈوپیسیفک کے لیے صرف آٹھ ارب ڈالر رکھے گئے ہیں۔

تائیوان چین تنازعہ کیا ہے؟

حالیہ برسوں کے دوران چین اور تائیوان کے مابین اس جزیرے کی حیثیت پر اختلافات کی وجہ سے کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ بیجنگ حکومت اس جزیرے یعنی تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے اور اس نے اسے چینی سرزمین میں 'دوبارہ شامل‘ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، چینی موقف ہے کہ اگر ضروری ہوا تو ایسا طاقت کے ذریعے کیا جائے گا۔

تائیوان کے ساتھ چین کا کوئی بھی فوجی تصادم امریکہ کو بھی اس لڑائی میں گھسیٹ لائے گا کیونکہ تائی پے حکومت کے ساتھ واشنگٹن کے خصوصی تعلقات ہیں اور امریکہ تائی پے حکومت کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران چین اور تائیوان کے مابین اس جزیرے کی حیثیت پر اختلافات کی وجہ سے کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے
حالیہ برسوں کے دوران چین اور تائیوان کے مابین اس جزیرے کی حیثیت پر اختلافات کی وجہ سے کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہےتصویر: EASTERN THEATER COMMAND OF THE PEOPLE'S LIBERATION ARMY/AFP

چین اور تائیوان 1949ء سے الگ ہیں۔ ایسا تب ہوا تھا، جب چینی خانہ جنگی ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹوں کی فتح کے ساتھ ختم ہوئی تھی۔ اس وقت شکست خوردہ قوم پرست، جن کی قیادت ماؤ کے حریف اور کومِن ٹانگ (کے ایم ٹی) پارٹی کے سربراہ چیانگ کائی شیک کر رہے تھے، تائیوان چلے گئے۔ تائیوان میں اس وقت سے ایک الگ اور آزادانہ حکومت قائم ہے۔

آبنائے تائیوان اس جزیرے کو چین سے الگ کرتی ہے۔ تائیوان میں جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے اور اس کی آبادی تقریباً 23 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے بیجنگ حکومت تائیوان کو ایک 'منحرف صوبے‘ کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے چینی سرزمین کے ساتھ 'متحد‘ کرنے کا عہد کرتی ہے۔

امریکہ کے تائیوان کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں؟

چین میں کمیونسٹ حکومت کے اقتدار میں آنے کے تقریباً تین دہائیوں کے بعد تک امریکہ نے جمہوریہ چین (تائیوان) کو ہی تمام چین کی حکومت کے طور پر تسلیم کیے رکھا۔ لیکن 1979ء میں واشنگٹن نے جمہوریہ چین (تائیوان) کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات اور باہمی دفاعی معاہدے منسوخ کرتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔

تاہم اس تبدیلی کے باوجود واشنگٹن نے تائی پے کے ساتھ غیر سرکاری طور پر قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ امریکہ تائیوان کو دفاعی مقاصد کے لیے فوجی ساز و سامان فروخت کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے حالانکہ بیجنگ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔

امریکی بحریہ کے جنگی جہاز بھی باقاعدگی سے آبنائے تائیوان سے گزرتے ہیں تاکہ خطے میں امریکی فوجی طاقت کو پیش کیا جا سکے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

ا ا / ع ت (اے پی، ڈی پی اے)