پاکستان میں’ایکسٹینشن کی سیاست‘ اور اس کے ملک پر منفی اثرات – DW – 24.09.2024
  1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں’ایکسٹینشن کی سیاست‘ اور اس کے ملک پر منفی اثرات

24 ستمبر 2024

پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو ’ایکسٹینشن کی متنازعہ سیاست نے یرغمال‘ بنا رکھا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فیصلے قومی مفاد کی بجائے شخصی یا سیاسی گروہوں کے مفاد میں کیے گئے تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4l0Ur
تھینک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا  کہنا تھا کہ ملک میں جاری موجودہ بحران کے تانے بانے بھی چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے مل رہے ہیں
تھینک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا  کہنا تھا کہ ملک میں جاری موجودہ بحران کے تانے بانے بھی چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے مل رہے ہیںتصویر: Press Information Department/Handout via REUTERS

تھینک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا  کہنا تھا کہ ملک میں جاری موجودہ بحران کے تانے بانے بھی چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے مل رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ آئینی ترامیم کا سلسلہ بھی تو اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ایکسٹینشن کی روایت جمہوریت اور گورننس کے تقاضوں کے منافی ہے، اس لیے اداروں کی مضبوطی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق ریاستی پالیسیوں کا انحصار آئینی اداروں اور جمہوری پارلیمان پر ہونا چاہیے نا کہ  فرد واحد پر،''ایکسٹینشن کے عرصے کے دوران ملک غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتا ہے۔ کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے اور فیصلہ سازی نہیں ہو پاتی۔ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا بندہ کون ہو گا اور کس طرح کے فیصلے لے گا۔ اس لیے اسٹیٹ پالیسیاں ایک بندے پر منحصر نہیں ہونی چاہئیں۔‘‘

ایکسٹینشن کا کتنا فائدہ، کتنا نقصان؟

ایک غیر سرکاری تنظیم پتن کے سربراہ سرور باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایکسٹینشن کا زیادہ تر  فائدہ تو صرف ایک آدمی کو ہوتا ہے لیکن اس کا زیادہ تر نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ ان کے بقول اس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ ایکسٹینشن پانے والے کے جونیئر افراد کا کیرئیر متاثر ہوتا ہے اور ان میں بددلی پھیلتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ  ایکسٹینشن پانے والا ایکسٹینشن دینے والی حکومت اور سیاسی جماعت کا احسان مند رہتا ہے اور وہ ان کی غلط پالیسیوں کا بھی ساتھ دینے پر مجبور ہو سکتا ہے۔

ریاستی پالیسیوں کا انحصار آئینی اداروں اور جمہوری پارلیمان پر ہونا چاہیے
ریاستی پالیسیوں کا انحصار آئینی اداروں اور جمہوری پارلیمان پر ہونا چاہیےتصویر: Raja I. Bahader/Pacific Press/IMAGO

سلمان عابد کہتے ہیں کہ اگر ملک میں سچ مچ کی جنگ ہو یا غیر معمولی صورتحال ہو تو پھر پارلیمان کے مشورے کے ساتھ کوئی معمولی اور عارضی بندوبست کی حد تک تو ایکسٹینشن  ٹھیک ہے لیکن ہر دور کو نازک دور قرار دے کر اسے معمول بنا لینا درست نہیں ہے۔

تجزیہ کار سلمان عابد کے مطابق کسی بھی ملک میں فرد واحد نہیں بلکہ ادارے مضبوط ہونے چاہئیں، ''ایکسٹینشن کے نام پر لالچی سیاست دانوں اور مفاد پرست عناصر کا گٹھ گوڑ ختم ہونا چاہیے۔ یہ تاثر بہت برا ہے کہ پاکستان کا نظام صرف چند لوگوں کی وجہ سے کھڑا ہے، انہیں ایکسٹینشن نہ ملی تو سارا نظام بکھر جائے گا۔‘‘

ایکسٹینشن کی سیاست کا ذمہ دار کون؟

تجزیہ کاروں کے بقول ملک میں ایکسٹینشن کی سیاست کو فروغ دینے میں سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کے ایک حصے سمیت بہت سے لوگوں کا کردار ہے۔ احمد بلال محبوب کے مطابق ماضی میں ایکسٹینشن نہ دینے والے وزیر اعظم اور حکومتوں کو بہت کچھ بھگتنا پڑا اور انہیں سبق بھی سکھایا گیا۔

سرور باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب دیکھیے ملک میں ایک ایسی حکومت ہے، جس کی اپنی  ساکھ بہت کمزور ہے اور ان کے مینڈیٹ پر سوالیہ نشان ہیں۔ اب وہ اپنی بقا کے لیے چیف جسٹس کو ایکسٹینشن دینا چاہتی ہے۔ اس کے لیے بہت کچھ کیا گیا اور رات کو ارکان اسمبلی بھی مبینہ طور پر اٹھائے گئے۔  آپ کسی کو دس سال کی ایکسٹینشن بھی دے دیں، پھر بھی اس نے گھر ہی جانا ہے۔ پاکستان میانمار یا مصر تو نہیں ہے، یہاں ملک کی مضبوطی صرف آئین اور قانون کی پیروی سے منسلک ہے۔‘‘

ریاستی پالیسیوں کا انحصار آئینی اداروں اور جمہوری پارلیمان پر ہونا چاہیے
ریاستی پالیسیوں کا انحصار آئینی اداروں اور جمہوری پارلیمان پر ہونا چاہیےتصویر: Pakistan Finance Ministry Press Service/AP/picture alliance

ایکسٹینشن کی سیاست کا خاتمہ کیسے ہو؟

تجزیہ کاروں کے بقول ویسے تو اس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ آئین اور قانون پر عمل کر لیا جائے، یہ سارے معاملات  پہلے سے ہی طے ہیں، صرف عملدرآمد کی کمی ہے۔ لیکن احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ ملک سے ایکسٹینشن کی سیاست کا خاتمہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کے علاوہ اداروں کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ سرور باری کہتے ہیں کہ جب تک سول سوسائٹی، خواتین، مزدور، کسان، طلبہ اور عام لوگ اس کے لیے کوشش نہیں کرتے، تب تک اس صورتحال میں بہتری آنے کا امکان نہیں ہے۔

ایکسٹینشن ایک پرانی روایت

پاکستان کی تاریخ میں سول اور ملٹری دونوں شعبوں میں ملازمت کی توسیع کے واقعات ملتے ہیں۔ پلڈاٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق آمریت کے ادوار میں تو یہ دلچسپ صورتحال بھی دیکھی گئی کہ ایکسٹینشن کا متمنی بندہ کئی کئی سال تک خود ہی اپنے آپ کو ایکسٹینشن دیتا رہا۔ پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کے فیلڈ مارشل ایوب خان سات سال اور دو سو چوراسی دن اپنے سرکاری عہدے پر رہے۔

جنرل یحییٰ خان پانچ سال ترانوے دن، جنرل ٹکا خان تین سال تین سو چوراسی دن، ضیا الحق بارہ سال ایک سو انہتر دن اور پرویز مشرف نو سال تریپن دن اپنے سرکاری عہدے پر رہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی ایک ایسے آرمی چیف تھے، جنہیں پیپلز پارٹی کی سیاسی حکومت نے ایکسٹینشن دی جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو عمران خان کی حکومت نے ایکسٹینشن دی۔

 پاکستان میں ایکسٹینشن کا یہ سلسلہ بیوروکریسی، ججوں، وائس چانسلرز اور دوسرے شعبوں تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے نگران حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی مسائل کی آڑ میں ایکسٹینشن دے دی گئی تھی۔ آج کل ملک کے سیاسی حلقوں میں  پاکستان کے چیف جسٹس، چیف الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلقہ ایک اہم شخصیت کی ایکسٹینشن کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔